Saturday, October 31, 2009

پاکستان میں امریکہ سے بڑھتی ہوئی ناراضی

پاکستان میں امریکہ سے بڑھتی ہوئی ناراضی

ایک ایسے وقت میں جب حکومت تواتر سے اس نوع کی باتیں کر رہی ہے اور بیانات دے رہی ہے جو وائٹ ہاؤس سننا چاہتاہے پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور عوام اکثر اوقات امریکہ کے خلاف کھلے عام برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنے دورے کے دوران دل جیتنے کا جو انداز اختیار کیا ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ انہیں بھی اس کا یقیناً کچھ اندازہ ضرور ہے۔

اس حوالے سے لاہور کے طلبا سے کالج میں ملاقات اور سینئر براڈ کاسٹروں سے اسلام آباد میں گول میز مباحثے کو درست سمت میں اٹھائے گئے اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔

لیکن امریکہ کی نیت کے بارے میں پاکستان میں جو بے اعتمادی پائی جاتی ہے اسے تبدیل کرنے کے لیے محض اتنا کرنا کافی نہیں ہو گا۔

پاکستان کی ایک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن کہتے ہیں کہ ’امریکہ پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتا ہے‘۔

انہوں نے ’گو امریکہ گو‘ مہم کے حوالے سے ایک اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ایسا ہو جائے گا تو وہ کہے گا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ نہیں ہیں اور اب اقوامِ متحدہ کو اس میں پڑنا چاہیے۔ اصل میں تو وہ پاکستان کو اس کے ایٹمی پروگرام سے محروم کرنا چاہتے ہیں‘۔

لیکن یہ محض منور حسن یا ان جیسا مذہبی حوالہ رکھنے والے لوگوں کے ہی جذبات نہیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر حامد میر کا دفتر ہے۔ وہ جیو کے ٹی وی کے ایک مذاکرے کی میزبانی کرتے ہیں اور ان کا یہ شو ملک میں خاصا بااثر تصور کیا جاتا ہے۔

وہ امریکی سفارتخانے پر چپ چپاتے پاکستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھانے اور بلیک واٹر جیسی نجی سکیورٹی ایجنسیوں کو یہاں کام کرنے کا موقع فراہم کرنے کے الزامات لگاتے ہیں۔

انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہے کہ ان کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کو امریکہ مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سارا پاکستان امریکہ مخالف ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا ’میں بڑی آسانی سے واشنگٹن کا چہیتا بن سکتا ہوں لیکن اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ میں اپنے ناظرین اور عام پاکستانیوں کی نظر میں ایک دشمن بن جاؤں گا‘۔

اس مخالفت میں مزید اضافہ حال ہی میں منظور کیے جانے والے کیری لوگر بل سے ہوا ہے۔ امریکہ نے یہ بل پاکستان کو امداد دینے کے لیے منظور کرایا ہے جب کہ پاکستانی یہ سمجھتے ہیں امریکہ اس بہانے پاکستان کے امور پر مزید گرفت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسز کلنٹن نے اپنے دورے کہ دوران پاکستانی حلقوں کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ امریکہ کو پاکستان کی مائیکرو منیجمنٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

ان کا تمام زور اس بات پر تھا کہ امریکہ شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے میں صرف پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔

اور گذشتہ دنوں اس خطرہ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس کا نشانہ وہ ادارے اور لوگ بھی بنے ہیں جن کا امریکہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مثلاً اسلام آْباد میں اسلامک یونیورسٹی پر خود کش حملہ، جس کا ہدف طالبات کا حصہ تھا اور جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔

لیکن جب اس حوالے سے طالبات سے بات کی گئی تو پہلی طالبہ جو ہمیں ملی اس کا کہنا تھا ’امریکہ کئی چیزوں میں مداخلت کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حملے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے‘۔

یہ تاثر بھی عام ہے کہ امریکہ کو جب ضرورت ہوتی ہے پاکستان کو استعمال کرتا ہے اور پھر دھتکار دیتا ہے۔

اسلام آْباد کے انسٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز میں امریکاز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نجم رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وسیع تر اثر نفوذ حاصل کرنا امریکہ کے لیے فطری بات ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ محض دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستان کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں اور وہ ایک ایٹمی طاقت ہے جس پر امریکہ نظر رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے امریکہ کے حریف چین سے براہِ راست رابطے ہیں۔ پھر وسطی ایشیا میں وسیع تر وسائل جن کو ابھی چھؤا تک نہیں گیا‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکیوں کے اپنے مفادات ہیں اور وہ ان کے کام کرتے ہیں‘۔ پاکستان کو امریکہ کے خلوص پر شک ہو سکتا ہے لیکن اپنی تمام خرابیوں کے لیے صرف امریکہ پر الزام تراشی بند کر دینی چاہیے۔

نجم رفیق کہتے ہیں ’ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام ہے، ہمارے ہاں معاشی عدم استحکام ہے، یہاں تک سماجی عدم استحکام ہے، ہمارے ہاں خوردنی اشیا کی قلت ہے، ہمارے ہاں توانائی کے وسائل کی کمی ہے، اور ان ساری باتوں کے لیے ہم امریکہ کو ہی موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا‘۔

1 comment:

  1. Hum ne hamesha Amrica ka ghulam hee rehna hai tu TV pe or news papers may Dramay kerna band ker dy GOVT ya phir Amrica se azadi hasil keray

    ReplyDelete